کاغذی تھیں جلا کے رکھ دی ہیں
ساری چڑیاں اُڑا کے رکھ دی ہیں
تجھ کو اب دل سے دیکھنا ہے مجھے
اپنی آنکھیں بجھا کے رکھ دی ہیں
اب وہ مقصودِ آرزو نہ رہا
خواہشیں سب دبا کے رکھ دی ہیں
دل بھی رکھا ہے ساتھ میں غم کے
گٹھڑیاں سی بنا کے رکھ دی ہیں
عمر فرØ+ت